!ہم سبھی اہل ہند کو یوم ِ آزادی مبارک ہو
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم ہندی مسلمان انگریزوں کے شکنجے سے آزاد ہونے کی خوشی منائیں یا ہندوؤں کے جبڑے میں جا پھنسنے کا ماتم کریں۔
ملک ہم سے چھنا تھا ۔ اصولا ہم کو واپس ملنا چاہیے تھا ۔ ایسا ہوتا تو واقعی آزادی کے ترانے اور خوشی کے شادیانے بر محل ہوتے ۔
لیکن جو ملت انگریز کے پنجے سے چھٹ کر ہندو کے جبڑے میں جا پھنسی ہو اور آئے دن ان جبڑوں سے لہو لہان کی جارہی ہو وہ سسک بلک تو سکتی ہے اپنی حرماں نصیبی پر لیکن ان جبڑوں سے رہائی تک آزادی کے ترانے نہیں پڑھ سکتی ۔
خدا کی جو زمین ہزار سال تک توحید کی آغوش میں رہنے کے بعد بد قسمتی سے پھر سے بت پرستوں کی بھینٹ کر دی گئی ہو وہ بھی اپنی قسمت پر رو تو سکتی ہے ۔ ہم سے ہماری نالائقی کا شکوہ کر سکتی ہے لیکن خود کو آزاد نہیں مان سکتی ۔
آزادی تو اصل میں خدا کی آغوش میں ملتی ہے ۔ اور اسکے بنا ہر آزادی نری قید ہے صرف قید۔
کاش ہم خود کو ٲغیار کے خونی جبڑے سے آزاد کرا پائیں ! کاش ہم خدا کی زمین کو بت پرستوں سے لیکر پھر سے توحید کی آغوش میں دے پائیں۔
تبھی ہم آزاد ہوں گے۔ تبھی ملک آزاد ہو گا۔ وہی دن ہو گا سچی آزادی کے ترانے پڑھنے کا۔
تب تک ہم خود کو بہلنے کے لیے بہر حال
انگریزوں کے شکنجے سے آزادی کی خوشی تو منا ہی سکتے ہیں۔ تو یوم آزادی مبارک ہو ! ہمکو بھی. آپکو بھی۔